THE MAJIC WORDS

Wednesday, 5 December 2012

How To Distinguish Between Deserving And Professional Beggars

یہ تمیز کیسے کی جا سکتی ہے کہ مانگنے والا حقدار بھی ہے یا نہیں؟

دنیا میں پائی جانے والی غربت اور مسائل کی بڑی وجہ معاشرے میں پائی جانے والی بےحسی اور بے مقصد توجیہات ہیں۔ 

معاشرے میں موجود دردِ دل رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد بھی یہ سوچ کر اپنی دولت خرچ نہیں کرتی کہ مانگنے والا شخص

مستحق بھی ہے یا نہیں اور وہ مستحق افراد کی لاحاصل تلاش میں سرگرم رہتے ہیں۔


اِس ضمن میں حضرت محمدﷺ نے اپنی اُمت کی واضح الفاظ میں رہنمائی فرمائی ہے۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ دستِ سوال

دراز کرنے والے کو خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ۔ خواہ خاک کی ایک چٹکی ہی ہو، دے دو۔

اِس حدیث کے بعد تو واضح ہو گیا کہ جس نے سوال کر دیا اُس کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے۔ رب تعالٰی کو وہ بندہ بھی عزیز ہے جو اُسے

مانتا ہی نہیں۔ رب تعالٰی سب کے لیے رزّاق اور رحمٰن ہے۔۔۔ دوسروں کو چھوڑ دیجیے کہ وہ منکر ہیں یا مشرک۔ خود اپنے اُوپر

نظر ڈالیے کہ صبح سے لے کر اب تک مجھ سے کوئی اچھا کام نہیں ہوا۔ میرے گناہوں کا کوئی شمار نہیں۔ میں اوّل درجہ کا 

نافرمان ہوں۔ سرکشی بھی کر جاتا ہوں۔ کون سا عیب ہے جو میرے اندر نہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود میرے رب

نے مجھے کبھی بھی نہیں کہا کہ تمھارے بِن مانگے میں تمھیں رزق دیتا ہوں۔ تم پر رحمتیں نازل کرتا ہوں۔ کبھی یہ نہیں کہا کہ 

تم تو میرے نافرمان ہو، میں تمھیں کیوں رزق دوں۔ 

وہ رب جو سارے خزانوں کا مالک ہے، مجہے دیتے وقت کبھی میرا حق دار ہونا نہیں دیکھتا، نہ ہی اس پر نظر رکھتا ہے کہ اُس کے

عطا کردہ رزق کو میں صحیح جگہ خرچ بھی کرتا ہوں یا نہیں۔۔۔ جبکہ وہ سائل تو اپنے رب کے مال میں سے لے کر جا رہا ہے جو 

میرے پاس پڑا ہے۔

اِس تمام گفتگو کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اِنسان یتیموں، مسکینوں اور ناداروں کو تلاش کر کے اُن تک اُن کا حق نہ پہنچائے بلکہ اِس

بات کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ دروازے پر آئے ہوئے سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا جائے اور اپنی استطاعت کے 

مطابق اُس کی مدد کر کے رب کو راضی کیا جائے۔

(سرفراز شاہ صاحب کی کتاب ’’کہے فقیر‘‘ سے ماخوذ) 

No comments:

Post a Comment